エピソード

  • Chand ke tamannai (Ibn e Insha) - Ahsan Tirmizi
    2024/10/29

    شہر دل کی گلیوں میں

    شام سے بھٹکتے ہیں

    چاند کے تمنائی

    بے قرار سودائی

    دل گداز تاریکی

    جاں گداز تنہائی

    روح و جاں کو ڈستی ہے

    روح و جاں میں بستی ہے

    شہر دل کی گلیوں میں

    تاک شب کی بیلوں پر

    شبنمیں سرشکوں کی

    بے قرار لوگوں نے

    بے شمار لوگوں نے

    یادگار چھوڑی ہے

    اتنی بات تھوڑی ہے

    صد ہزار باتیں تھیں

    حیلۂ شکیبائی

    صورتوں کی زیبائی

    قامتوں کی رعنائی

    ان سیاہ راتوں میں

    ایک بھی نہ یاد آئی

    جا بجا بھٹکتے ہیں

    کس کی راہ تکتے ہیں

    چاند کے تمنائی

    یہ نگر کبھی پہلے

    اس قدر نہ ویراں تھا

    کہنے والے کہتے ہیں

    قریۂ نگاراں تھا

    خیر اپنے جینے کا

    یہ بھی ایک ساماں تھا

    آج دل میں ویرانی

    ابر بن کے گھر آئی

    آج دل کو کیا کہئے

    با وفا نہ ہرجائی

    پھر بھی لوگ دیوانے

    آ گئے ہیں سمجھانے

    اپنی وحشت دل کے

    بن لئے ہیں افسانے

    خوش خیال دنیا نے

    گرمیاں تو جاتی ہیں

    وہ رتیں بھی آتی ہیں

    جب ملول راتوں میں

    دوستوں کی باتوں میں

    جی نہ چین پائے گا

    اور اوب جائے گا

    آہٹوں سے گونجے گی

    شہر دل کی پنہائی

    اور چاند راتوں میں

    چاندنی کے شیدائی

    ہر بہانے نکلیں گے

    آرزو کی گیرائی

    ڈھونڈنے کو رسوائی

    سرد سرد راتوں کو

    زرد چاند بخشے گا

    بے حساب تنہائی

    بے حجاب تنہائی

    شہر دل کی گلیوں میں


    続きを読む 一部表示
    2 分
  • Aakhri mulaqaat (Jan Nisar Akhtar) - Ahsan Tirmizi
    2024/10/12


    مت روکو انہیں پاس آنے دو

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

    دو پاؤں بنے ہریالی پر

    ایک تتلی بیٹھی ڈالی پر

    کچھ جگمگ جگنو جنگل سے

    کچھ جھومتے ہاتھی بادل سے

    یہ ایک کہانی نیند بھری

    اک تخت پہ بیٹھی ایک پری

    کچھ گن گن کرتے پروانے

    دو ننھے ننھے دستانے

    کچھ اڑتے رنگیں غبارے

    ببو کے دوپٹے کے تارے

    یہ چہرہ بنو بوڑھی کا

    یہ ٹکڑا ماں کی چوڑی کا

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

    السائی ہوئی رت ساون کی

    کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی

    کچھ ٹوٹی رسی جھولے کی

    اک چوٹ کسکتی کولھے کی

    سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں

    اک چہرہ کتنی آڑوں میں

    کچھ چاندنی راتیں گرمی کی

    اک لب پر باتیں نرمی کی

    کچھ روپ حسیں کاشانوں کا

    کچھ رنگ ہرے میدانوں کا

    کچھ ہار مہکتی کلیوں کے

    کچھ نام وطن کی گلیوں کے

    مت روکو انہیں پاس آنے دو

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

    کچھ چاند چمکتے گالوں کے

    کچھ بھونرے کالے بالوں کے

    کچھ نازک شکنیں آنچل کی

    کچھ نرم لکیریں کاجل کی

    اک کھوئی کڑی افسانوں کی

    دو آنکھیں روشن دانوں کی

    اک سرخ دلائی گوٹ لگی

    کیا جانے کب کی چوٹ لگی

    اک چھلا پھیکی رنگت کا

    اک لاکٹ دل کی صورت کا

    رومال کئی ریشم سے کڑھے

    وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے

    مت روکو انہیں پاس آنے دو

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

    کچھ اجڑی مانگیں شاموں کی

    آواز شکستہ جاموں کی

    کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے

    کچھ گھنگرو ٹوٹی پائل کے

    کچھ بکھرے تنکے چلمن کے

    کچھ پرزے اپنے دامن کے

    یہ تارے کچھ تھرائے ہوئے

    یہ گیت کبھی کے گائے ہوئے

    کچھ شعر پرانی غزلوں کے

    عنوان ادھوری نظموں کے

    ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی

    اک خشک قلم اک بند گھڑی

    مت روکو انہیں پاس آنے دو

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

    کچھ رشتے ٹوٹے ٹوٹے سے

    کچھ ساتھی چھوٹے چھوٹے سے

    کچھ بگڑی بگڑی تصویریں

    کچھ دھندلی دھندلی تحریریں

    کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے

    کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے

    کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے

    کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے

    کچھ اجڑی اجڑی دنیا میں

    کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں

    کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں

    یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں

    مت روکو انہیں پاس آنے دو

    یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

    میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

    کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں


    続きを読む 一部表示
    4 分
  • Nazrana (Kaifi Azmi) - Ahsan Tirmizi
    2024/07/06

    Feel free to share your opinions with me at theurdupoetrypodcast@gmail.com

    nazm:

    تم پریشان نہ ہو، باب کرم وا نہ کرو

    اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا

    اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں

    شب تاریک گزاروں گا، چلا جاؤں گا

    راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری

    کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں

    کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں

    میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں

    یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا

    کہیں انعام ملا، اور کہیں قیمت بھی نہیں

    کچھ تمہارے لیے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے

    دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں

    ایک تو اتنی حسیں دوسرے یہ آرائش

    جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے

    مسکرا دیتی ہو رسماً بھی اگر محفل میں

    اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے

    گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر

    جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے

    میں نے سوچا ہے کہ سب سوچتے ہوں گے شاید

    پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے

    کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول

    چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت

    ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق

    ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت

    پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں

    کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو

    کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو

    اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو

    آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے

    میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا

    تم پریشان نہ ہو، باب کرم وا نہ کرو

    اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا

    続きを読む 一部表示
    2 分
  • Sab Maaya Hai (Ibn e Insha) - Ahsan Tirmizi
    2024/06/29

    Sab Maaya Hai by Ibn e Insha:

    سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

    اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے

    جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے جو فرمایا ہے

    سب مایا ہے

    ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی

    یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی

    بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے

    سب مایا ہے

    اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں

    جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں

    تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے

    سب مایا ہے

    معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی

    سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشاؔ بھی

    فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے

    سب مایا ہے

    کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو

    جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو

    اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے؟

    سبب مایا ہے

    جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں

    تم جانتے ہو ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں

    دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے

    سب مایا ہے

    وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی

    وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی

    آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

    سب مایا ہے

    جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں

    وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں

    ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے

    سب مایا ہے

    جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے

    اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے

    اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے

    سب مایا ہے

    続きを読む 一部表示
    3 分
  • Taaruf (Nun meem Rashid) - Ahsan Tirmizi
    2024/05/25

    اجل، ان سے مل،

    کہ یہ سادہ دل

    نہ اہل صلوٰۃ اور نہ اہل شراب،

    نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب،

    نا اہل کتاب

    نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین

    نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین

    فقط بے یقین

    اجل، ان سے مت کر حجاب

    اجل، ان سے مل!


    بڑھو، تم بھی آگے بڑھو

    اجل سے ملو،

    بڑھو، نو تونگر گداؤ

    نہ کشکول دریوزہ گردی چھپاؤ

    تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں

    اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!

    بڑھو بندگان زمانہ بڑھو بندگان درم

    اجل یہ سب انسان منفی ہیں

    منفی زیادہ ہیں انسان کم

    ہو ان پر نگاہ کرم

    続きを読む 一部表示
    2 分
  • Ek ladka (Ibn e Insha) - Ahsan Tirmizi
    2024/05/20

    ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

    ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا

    جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر

    جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا

    لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں

    ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

    خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے

    آج میلہ لگا ہے اسی شان سے

    آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں

    آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں

    نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں

    پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں

    続きを読む 一部表示
    1 分
  • Ek dost ki khushmazaqi par (Majaz) - Ahsan Tirmizi
    2024/05/12

    نظم:

    ہو نہیں سکتا تری اس ''خوش مذاقی'' کا جواب

    شام کا دل کش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب

    رکھ بھی دے اب اس کتاب خشک کو بالائے طاق

    اڑ رہا ہے رنگ و بو کی بزم میں تیرا مذاق

    چھپ رہا ہے پردۂ مغرب میں مہر زر فشاں

    دید کے قابل ہیں بادل میں شفق کی سرخیاں

    موجزن جوئے شفق ہے اس طرح زیر سحاب

    جس طرح رنگین شیشوں میں جھلکتی ہے شراب

    اک نگارش آتشیں ہر شے پہ ہے چھایا ہوا

    جیسے عارض پر عروس نو کے ہو رنگ حیا

    شانۂ گیتی پہ لہرانے کو ہیں گیسوئے شب

    آسماں میں منعقد ہونے کو ہے بزم طرب

    اڑ رہے ہیں جستجو میں آشیانوں کے طیور

    آ چلا ہے آئنے میں چاند کے ہلکا سا نور

    دیکھ کر یہ شام کے نظارہ ہائے دل نشیں

    کیا ترے دل میں ذرا بھی گدگدی ہوتی نہیں

    کیا تری نظروں میں یہ رنگینیاں بھاتی نہیں

    کیا ہوائے سرد تیرے دل کو تڑپاتی نہیں

    کیا نہیں ہوتی تجھے محسوس مجھ کو سچ بتا

    تیز جھونکوں میں ہوا کے گنگنانے کی صدا

    سبزہ و گل دیکھ کر تجھ کو خوشی ہوتی نہیں

    اف ترے احساس میں اتنی بھی رنگینی نہیں

    حسن فطرت کی لطافت کا جو تو قائل نہیں

    میں یہ کہتا ہوں تجھے جینے کا حق حاصل نہیں

    続きを読む 一部表示
    2 分
  • Manzar (Faiz Ahmad Faiz) - Ahsan Tirmizi
    2024/05/07

    Aadab! Intezaar ka bohat shukriya. Hazir hu ik nayi nazm ke saath.

    続きを読む 一部表示
    1 分